صحت کو اس کی اطاعت میں صرف کرنے کو تجارت سے تعبیر کرتا ہے اور حوصلہ بڑھاتا ہے کہ میرے ساتھ تمہارا معاملہ نقصان کا نہیں بہرنوع نفع کا ہے۔ ورنہ بندہ وغلام کا اپنا کیا ہے یہ غلام ہے مزدور نہیں کہ مزدوری کا اجر طلب کرے بلکہ غلام ہے وہ بس یہ چاہتا ہے کہ مالک راضی ہوجائے اور اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے۔ اللہ کا یہ یقینا وعدہ ہے اسی لیے ایمان وعمل صالح کرنے والے امیدوار ہیں کہ ان کی تجارت کھوٹی نہیں ہوگی۔ بعد کی آیت میں وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی امیدوں سے بھی زیادہ عطا فرمائیں گے۔ ﴿لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ﴾ ان کی تجارت میں خسارہ نہیں ہوگا بلکہ انہیں پورا پورا اجر ملے گا۔ ایک عمل کا اجر کم سے کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گنا تک ہوگا۔ اور حسب حال انہیں پورا اجر ملے گا۔ عمل کا اجر ہی نہیں ﴿وَ یَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ﴾ بلکہ اپنے فضل واحسان سے اور بھی بہت کچھ نوازے گا۔ سات سو سے بھی زیادہ اجر وثواب سے نوازے گا اور اپنے دیدار کا شرف بھی انہیں بخشے گا۔ جیسے فرمایا: ﴿لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْھَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ ﴾ [1] ’’ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں گے اسی میں ہوگا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔‘‘ اور یہ مزید جنت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا دیدار ہے۔ اس حوالے سے ایک نظر اس پر بھی ڈالی جائے جو ہم اسی آیت کی تفسیر میں لکھ چکے ہیں۔ اور اس اضافے میں وہ اعزاز واکرام بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ انہیں گناہ گاروں کی سفارش کے لیے عطا فرمائے گا۔ ایمان وعمل صالح پر کاربند رہنے والوں کے لیے اسی اجر وفضل کا ذکر سورۃ النساء(۱۷۳ )میں بھی ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا ہے: |