اسی طرح سورۃ توبہ میں فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَقف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖط وَ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾[1] ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقینا ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمہ پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ یہاں بھی اعمالِ صالحہ کے تناظر میں تجارت کا ذکر ہے۔ تجارت میں تاجر اپنا سرمایا، اپنا وقت، اپنی صلاحیت صرف کرتا ہے تاکہ اسے نفع حاصل ہو اور اس کے سرمائے میں اضافہ ہو مگر اس کے باوجود بعض اوقات نفع کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ اور دنیا میں ہر تجارت اسی نفع ونقصان کے مابین معلق ہوتی ہے۔ نفع کے ساتھ نقصان کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ لیکن اللہ کے ساتھ تجارت میں ﴿لن تبور﴾ سے اشارہ ہے کہ اس تجارت میں نقصان کا ہرگز احتمال نہیں۔ اس کی کامیابی اور اس کے نفع کی پیشگی تمہیں مبارک ہو۔ یہ اللہ کا تمہارے ساتھ ایسا وعدہ ہے جو تورات، انجیل میں ہے اور قرآنِ پاک میں بھی، بھلا اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کا کرم ہے وہ اپنے دئیے ہوئے مال اور عطا کی ہوئی |