’’اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اس کی وجہ سے بنائے گئے ہو جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اعمالِ حسنہ کا بدل ہے۔ علمائے کرام نے اس اشکال کا یہ جواب دیا ہے کہ جنت میں داخلہ تو اللہ کی رحمت سے ہوگا، عمل تو بجائے خود اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے۔ اس کی رحمت نہ ہو تو کوئی نیک عمل کر نہیں سکتا۔ پھر یہ عمل اگر اللہ کی رضا کے مطابق بھی ہو تو وہ کسی نعمت کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ بلکہ تمام اعمال ایک نعمت کے قائم مقام نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اعمال کا بدلہ جنت نہیں البتہ جنت کے درجات ومراتب اعمال کی مناسبت سے ملیں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعمال میں قبولیت کی شرط ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان آیات میں قبولیت کا اظہار ہے کہ جو تم مقبول عمل کرتے رہے ان کے بدلے میں جنت ہے۔ اس آیت میں اعمالِ صالحہ، تلاوت، نماز، انفاق کو تجارت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت اور خرید وفروخت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ [1] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہاری ایسی تجارت کی طرف راہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘ |