Maktaba Wahhabi

190 - 313
اس صفت کا عموماً اللہ کی صفتِ ’’الحمید‘‘ کے ساتھ ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ ایک مقام پر ’’غنی حلیم‘‘(البقرہ:۲۶۳) اور ایک اور مقام پر ’’غنی کریم‘‘(النمل:۴۰) بھی وارد ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے: ﴿وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ﴾ [1] ’’اور تیرا ربّ ہی ہر طرح بے پروا، کمال رحمت والا ہے۔‘‘ ﴿الحمید﴾ تمام تعریفوں کے لائق وہی ہے اور اپنی ذات میں محمود ہے۔ کوئی انسان اس کی حمد کرے، نہ کرے مگر حمد کا مستحق وہی ہے۔ اس حقیقت کو ہر ذرہ ذرہ جانتا ہے اس لیے وہ اس کی حمد وتسبیح بیان کرتا ہے۔ ﴿وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ لٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ﴾[2] ’’اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘ اور اللہ ہی ہے جو غنی اور حمید ہے۔ ایک انسان اپنے مالدار ہونے کی وجہ سے ’’غنی‘‘ تو ہے مگر وہ دوسروں سے بے نیاز نہیں، اسی لیے وہ ’’حمید‘‘ نہیں، ’’حمید‘‘ وہی ہوسکتا ہے جو بے پروا ہو، کسی سے کوئی فائدہ اٹھانے والا نہ ہو مگر اپنے خزانوں کے منہ دوسروں کے لیے کھول دینے والا ہو۔ انسانوں میں محض مالدار ہونا لائقِ تعریف نہیں ہوتا، بلکہ وہی مالدار لائقِ تحسین وتعریف ہوتا ہے جو جود وسخا کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ تو ایسا غنی ہے جو ہر ایک سے بے پروا ہے، ہر ایک کو جو کچھ مل رہا ہے اسی کے دستر خوان سے مل رہا ہے۔ کوئی اس کی حمد کرے نہ کرے اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ کوئی حمد کرے گا تو اسی کو فائدہ پہنچے گا۔ اللہ ’’غنی‘‘ ہے۔ سب سے بے نیاز ہے۔ اس کے باوجود وہ فرماتا ہے: مجھ سے
Flag Counter