ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی ﴾ [1] ’’اس نے تجھے تنگ دست پایا تو غنی کردیا۔‘‘ مگر اس انعام واکرام کے باوجود فقیر تھے اور اپنے فقر میں دوسروں سے بے نیاز ، اور اس لیے حقیقی فقیر وہی ہے جو ہمیشہ ہر حال میں اپنے اللہ کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار کرے اور ہر ضرورت اسی سے طلب کرے۔ اور اپنے تمام احوال میں اللہ کی طرف متوجہ رہے۔مال ودولت پر فریفتہ ہو کر اللہ سے غافل نہ ہو، اپنے اللہ کا شکر کرنارہے۔ فقروسکنت ہوتو حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے بلکہ صبروقناعت کا مظاہرہ کرے۔ ﴿وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾ اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ ’’غنی‘‘ کے معنی تونگری،کامل ملکیت، بے نیازی اور ہر ایک سے مستغنی کے ہیں۔ اور کلی طور پر بے نیازی اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اس کے دوسرے معنی قدرِ محتاج ہونا اور ماتیسر پر قانع ہونا ہیں۔ اسی معنی میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی ﴾ [2] ’’اور اس نے تجھے تنگ دست پایا تو غنی کردیا۔‘‘ اور حدیث میں ہے: ’ اَلْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ‘ ’’کہ غنی درحقیقت قناعتِ نفس کا نام ہے۔‘‘ اور ’’غنی‘‘ کے ایک معنی مالدار کے ہیں۔ مگر اللہ کے لیے اس معنی میں یہ استعمال نہیں ہوا بلکہ ’’الغنی‘‘ سب سے بے نیاز اور کسی کی مدد کا ممتاج نہ ہونے کے معنی میں آیا ہے۔ |