اللہ ہی نے تو فرمایا ہے: ﴿وَ لَوْ لَا اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلًا ﴾ [1] ’’اور اگر ہم نے تجھے ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تھوڑا سا تو ان کی طرف مائل ہوجاتا۔‘‘ اپنی عبدیت کے اظہار میں فرماتے ہیں: ’ لَا تَطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ ‘ ’’میرا مرتبہ اس طرح نہ بڑھا دینا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مرتبے سے بڑھا دیا تھا۔ بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: لوگو! ’ مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ فَوْقَ مَنْزَلَتِیْ اِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ ‘ ’’میں پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھاؤ، بے شک میں بندہ ہوں۔‘‘ اسی مقامِ فقر وعبدیت اور اللہ کی کامل معرفت کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے مقامِ وسیلہ عطا فرمایا اور قیامت کے روز پوری انسانیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بلند فرمایا۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں: یہی فقر نافع ہے اور یہی مطلوب ومقصود ہے۔ یہ فقر مال ودولت کے منافی نہیں۔ انبیائے کرام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام صاحبِ مال ومویشی تھے۔ حضرت داود اور سلیمان رضی اللہ عنہما بھی صاحبِ مال ودولت تھے، حتی کہ اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایسی بادشاہی اور سلطنت عطا فرمائی کہ ایسی بادشاہت مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں |