Maktaba Wahhabi

187 - 313
’’اللہ کی طرف محتاج‘‘ ہونے کا یعنی اللہ کی الوہیت کی طرف محتاج ہونے کا ذکر ہے۔ یہی فقر اختیاری ہے اور یہی فقر انبیائے کرام اور صالحین وابرار کا ہے۔ اور یہ اس خوش نصیب کو حاصل ہوتا ہے جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اپنے آپ کی حقیقت وحیثیت بھی سامنے ہوتی ہے۔ چناں چہ جو سمجھ لیتا ہے کہ غنی مطلق اللہ ہے وہ یہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ میں سراپا فقیر ومحتاج ہوں۔ جو جان لیتا ہے کہ میرا اللہ ہی قادر مطلق ہے، وہ یہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ میں عاجز وبے بس ہوں۔ جو سمجھ لیتا ہے میرا اللہ ہی تمام عزت کا حق دار ہے، وہ اپنے بارے میں سمجھ لیتا ہے کہ میں سراپا مسکین وحقیر اور اس کا بندہ ہوں۔ جو جان لیتا ہے کہ علم وحکمت اللہ کی صفت ہے، وہ اپنے بارے میں اپنی بے خبریوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے زیادہ اپنی عبدیت کا اعتراف واظہار کرنے والے اور اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر اور اپنی محتاجی کو سب سے زیادہ پیش کرنے والے تھے۔ آپ کی ایک دعا کے الفاظ ہیں: اَللَّہُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْا فَلَا تَکِلْنِیْ اِلَی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنِ وَاَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر اور میری ہر حالت درست کردے۔ تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔‘‘ آپ سیّد الانبیاء ہیں اور امام الہدیٰ ہیں، پھر بھی اللہ سے عرض کرتے ہیں: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِیْنِکَ ’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون جاننے والا ہے کہ دل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔
Flag Counter