اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک ضعیف سند سے میدانِ عرفات میں ایک دعا کے الفاظ ہیں: ’ اَللَّہُمَّ اَنْتَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَعْلَمُ مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ لَا یَخْفَی عَلَیْکَ شَیئْ مِنْ أَمْرِیْ، وَاَنَا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِہِ، اَسْأَلُکَ مَسْأَلَۃَ الْمِسْکِیْنَ … اَللَّہُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَائِکَ شَقِیًّا وَکُنْ بِیْ رَئُ وْفًا رَّحِیْمًا یَا خَیْرَ الْمَسْؤْلِیْنَ یَا خَیْرَ الْمُعْطِیْنَ ‘[1] ’’اے اللہ تو میرا کلام سنتا ہے، میری حیثیت کو دیکھتا ہے، میرے اندرونی وبیرونی معاملات کو جانتا ہے، میری کوئی چیز تجھ سے چھپی ہوئی نہیں، میں لاچار فقیر ہوں،مدد کا طلب گار ہوں، پناہ مانگنے والا ہوں، خوف کھانے اور ڈرنے والا ہوں، اپنی خطاؤں کا اعتراف ہے۔ میں مسکین کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں … اے اللہ! مجھے اپنے پکارنے میں نا امید نہ کر، میرے ساتھ رأفت ورحمت کا معاملہ فرما۔ اے بہترین مسؤل اور بہترین عطا کرنے والے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ اور اسی نوعیت کی بہت سی دعاؤں سے واضح ہوتا ہے کہ بندہ اپنے ہر معاملے میں اللہ کا محتاج ہے۔ حافظ ابن قیم نور اللہ مرقدہ نے ’’طریق الہجرتین‘‘(ص۸،۹) میں بڑی لطیف بات کہی ہے کہ’’ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’اَنْتُمْ الْفُقَرَائُ اِلَی اللّٰہِ‘ تم اللہ کی طرف محتاج ہو۔ یہ نہیں فرمایا: کہ تم اپنے ربّ کی طرف فقیر ہو۔ کیوں کہ تمام انسان کیا، تمام مخلوق اللہ کی ربوبیت کی محتاج ہے۔ اور یہ فقر اضطراری ہے جس سے کوئی نیک یا گناہگار، مومن یا کافر خارج نہیں۔ یہ فقر نہ باعثِ ثواب ہے نہ باعثِ عتاب، نہ اللہ کے ہاں باعثِ مدح ہے۔ ہر انسان ہوا، پانی، غذا کا محتاج ہے حتی کہ زندگی میں دوسرے انسانوں سے تعاون کا بھی محتاج ہے۔ بلکہ یہاں |