Maktaba Wahhabi

182 - 313
والا،طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔‘‘ یوں نہیں کہ میرا دربار اور ڈیرہ تب چلے گا جب لوگ میری عبادت اور میری اطاعت کریں گے۔ جیسا کہ عموماً اللہ کے سوا جن کو پوجا جا رہا ہے ان کے دربار ان کے ماننے والوں کی وجہ سے بارونق ہیں وہ اگر وہاں چندہ وخیرات اور نذرانے نہ دیں تو ان کا دربار نہیں چلتا۔ لوگوں کو ان سے رزق تو کجا الٹا لوگوں سے انہیں رزق پہنچایا جاتا ہے۔ ایک اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے لیتا نہیں بلکہ سب کچھ انہیں دیتا ہے۔ وہ خود کھاتا نہیں سب کو کھلاتا ہے: ﴿وَ ہُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ ﴾(الانعام:۱۴) جو خود کھانے کا محتاج ہے وہ دوسروں کی محتاجی کیوں کر دور کر سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدۂ محترمہ، جنھیں معبود بنانے والوں نے معبود بنایا، کے بارے میں فرمایا: ﴿کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ ﴾[1] ’’وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔‘‘ اس لیے یہ نہ سمجھو کہ ہماری عبادت کا اللہ محتاج ہے۔ ہم اس کی بندگی کریں گے تو اس کی بسائی ہوئی یہ بستی بسے گی۔ہرگز ایسا نہیں بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تم پیدا ہوئے تو تم ہر چیز سے بے خبر تھے، کچھ کرنے کی قدرت نہیں تھی نہ کسی چیز کے تم مالک تھے اس حال میں اللہ نے تمہیں پروان چڑھایا۔ پھر تمہیں عقل وشعور اللہ نے عطا فرمایا، کمانے کی قوت اللہ نے دی، یوں قدم قدم پر تم محتاج ہو۔ اگر وہ چاہے تو ایک لمحہ کے لیے زندہ نہیں رہ سکتے، اگر چاہے تو تمہاری قوتیں لمحہ بھر میں زائل کردے اور اگر چاہے تو تمہارے اسباب ووسائل کو تمہارے اوپر الٹ دے۔ اس لیے محتاج تم ہو حتی کہ ہمارے نوازنے کے باوجودتمھاری محتاجی ختم نہیں ہوتی۔ ﴿ہَلْ مِنْ مَّزِیْد﴾ کی حرص قائم رہتی ہے۔ کسی اللہ والے نے کیا خوب کہا ہے: اَللَّہُمّٰ اِنِّیْ فَقِیْرٌ فِیْ غِنَایَ فَکَیْفَ لَا اَفْقِرُ فِیْ فَقْرِیْ
Flag Counter