قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔‘‘ اب یہ کیا ستم ظریفی ہے اللہ فرمائے: مجھے پکارو میں جواب دیتا ہوں، قبول کرتا ہوں۔ مجھے پکارنا حق ہے اور یہ بھی فرمائے کہ میرے علاوہ جنھیں پکارا جائے وہ جواب نہیں دیتے۔ قیامت تک تمہاری درخواست قبول نہیں کرسکتے۔ ان کو پکارنا باطل ہے۔ مگر اس کے برعکس اللہ کو تو پکارا نہ جائے اور اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کو پکارا جائے اور ان سے مدد طلب کی جائے۔ کیا ہمارے اس طرز عمل پر کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اللہ پر ایمان ویقین ہے اور اللہ کی ہر بات صحیح ہے؟ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں یہ بات بھی کہی ہے کہ اگر ان بتوں کو حیات اور عقل دے دی جائے اور وہ تمہاری پکار کو سن لیں تو وہ تمہاری کافرانہ پکار قبول نہیں کریں گے، بلکہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کریں گے۔ گویا وہ تمہاری غلط بات پر متوجہ ہی نہیں ہوں گے۔ جب بتوں کی یہ کیفیت ہے تو اللہ کے نیک بندے اس کافرانہ پکار کو کیوں کر قبول کریں گے اور مشرکین کی حاجت برآری کیسے کریں گے۔ ﴿وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ﴾ تمہاری پکار نہ قبول کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ چہ جائیکہ وہ تمہاری پکار کا جواب دیں۔ ﴿وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ﴾[1] ’’اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ (معبودانِ باطلہ) ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔‘‘ |