﴿اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ ﴾ (فاطر:۱۴) ’’اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کریں گے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کی مزید بے بسی اور بے چارگی کا اظہار ہے۔ چناں چہ فرمایا: ’’اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سنیں گے نہیں۔‘‘ مصائب وآلام میں، یا اپنی دیگر ضروریات میں تم انہیں مدد کے لیے پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے۔علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:اگر وہ معبود بت ہیں تو ظاہر ہے وہ سمع وبصر سے ہی محروم ہیں اور اگر وہ ملائکہ یا صالحین ہیں تو وہ ان کے قریب نہیں کہ سن سکیں۔ یا وہ حظیرۃ القدس میں اپنے مشاغل میں ہیں وہ تمہاری پکار کیسے سنیں۔ یا یہ کہ اللہ نے مشرکین کی اس پکار کو سننے سے ان کے کانوں کو محفوظ کر دیا ہے کہ ان تک یہ قبیح آواز ہی نہ پہنچے۔[1] اللہ تعالیٰ جسے چاہے کوئی بات سنا دے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کی پکار کو ان کے معبود نہیں سنتے تو اب یہ نزاع لفظی ہے کہ وہ کچھ سنتے ہیں یا نہیں سنتے۔ کچھ اور سنتے ہیں یا نہیں سنتے اس سے قطع نظر یہاں نفی مشرکین کی اپنی حاجات میں اپنے معبودوں کو پکارنے کی ہے کہ ان کی پکار وہ نہیں سنتے۔ ﴿وَ لَوْ سَمِعُوْا ﴾ بالفرض اگر وہ سن لیں، تو وہ تمہیں عملاً جواب نہیں دے |