کابیان ہے، جس کا کفارِ مکہ انکار کرتے تھے۔ چناں چہ لیل ونہار اور شمس وقمر کا یہ نظام جو ایک ڈھب اور سلیقے سے بلا تعطل چل رہا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے۔ یہ نظام ایک اللہ مالک الملک کے ہاتھ میں ہے اور جب تک وہ چاہے گا، اسی طرح چلتا رہے گا۔ اگر یہ نظام خود بخود جاری ہوتا یا اللہ کے سوا کسی اور معبود کا بھی اس میں عمل دخل ہوتا تو یہ ایک ہی ڈھب پر نہ رہتا، اس میں تفاوت اور تفاضل پایا جاتا اور تعطل کا شکار ہوجاتا، جیسا کہ ایک ملک کو دو یا تین بادشاہوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے تو ایک کسی کام کے کرنے کا حکم صادر کرے گا اور دوسرا اس میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔ ملک ایک نہج پر چل نہیں سکے گا۔ مگر شب وروز اور شمس وقمر کا یہ نظام دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا ایک صانع ہے اور اس کو چلانے والا ایک اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ ٰالِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَاج ﴾ [1] ’’اگر ان دونوں (آسمان اور زمین) میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔‘‘ اسی طرح رات کا چلا جانا اور روشنی کا پھیل جانا اور سورج کے ہوتے ہوئے چاند کا بے نور ہونا، اور سورج کے غروب ہونے پر چاند کا منور ہونا بجائے خود دلیل ہے کہ جو اس طرح ایک کو تلف کرکے دوسرے کو اس کے مقام پر لانے پر قادر ہے وہ انسانوں کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت واختیار ہے اور یہ سارا نظام اس نے چلا رکھا ہے تو یہ بات محال ہے کہ انسانوں کو کوئی حکم نہ دے، نہ کسی بات سے منع کرے اور انہیں بے کار آزاد چھوڑ دے، اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کا ایک رسول ہو جو یہ بتلائے کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور اللہ نے کس سے منع کیا ہے، لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے معلوم ہوا کہ اس آیت میں توحید کے علاوہ رسالت اور قیامت کا بھی اثبات ہے۔ |