جلدی سن لیتے ہیں۔ یہ کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس گمراہی اور سرکشی سے بچائے۔[1] اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی ان کے اسی غلط عقیدے کی تردید کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ کے علاوہ جنھیں وہ پکارتے ہیں وہ حقیر چھلکے کے مالک بھی نہیں۔ غور فرمائیے ﴿من دونہ﴾ کے لیے ملکیت کی نفی میں وہ بزرگ ہستیاں بھی شامل ہیں، جن کی ملکیت کی نفی اوپر سورۃ بنی اسرائیل اور الفرقان میں کی گئی ہے، جنھیں انھوں نے اللہ کا بیٹا یا بیٹیاں بنا دیا تھا۔ اللہ کی تو کوئی اولاد ہی نہیں، اس لیے کسی کی شراکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے یہاں بڑی لطیف بات فرمائی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہاں اپنے دو اوصاف کا ذکر کیا ہے: ۱: صفتِ خلق کا کہ اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ ۲: اپنی بادشاہت کا۔ اور انہی دو سے اپنی الوہیت پر استدلال کیا ہے۔ (ذلکم اللہ) اسی طرح ﴿قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِٰلہِ النَّاسِ ﴾ میں بھی پہلی دو صفتوں کے بعد الوہیت پر استدلال ہے، جب کہ جنھیں اللہ کے سوا معبود سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے صرف ان کی بادشاہی کی تردید کی ہے کہ وہ تو ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں، ان کے کسی اور وصف کی نفی نہیں کی۔ یہ اس لیے کہ وہ اس حقیقت کے تو معترف تھے کہ خالق اللہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ نے امور دنیا ہمارے معبودوں کو تفویض کردئیے ہیں۔ اس لیے ان کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ نہ ملک اللہ کے سوا کسی کا ہے، نہ اللہ نے انہیں کسی شے کا مالک بنایا ہے۔ بلکہ کسی چیز کے مالک ہونے کی نفی ہی ان کے خالق ہونے کی نفی کو مستلزم ہے۔ کیوں کہ اگر کسی نے کچھ بنایا ہے تو وہ اس کا مالک بھی ہے مگر جب وہ ایک چھلکے کے مالک نہیں تو انھوں نے قلیل وکثیر کچھ بھی نہیں بنایا۔ امام ابومنصور ماتریدی نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں توحید ورسالت اور قیامت |