’ لَبَّیْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِلَّا شَرِیْکاً ہُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ ‘[1] ’’ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک جو تیرا (ہی مقرر کردہ) ہے تو اس کا مالک ہے اور وہ خودبخود مالک نہیں۔‘‘ ان کے اس عقیدے کی قرآنِ مجید میں جا بجا تردید کی گئی ہے۔ یہاں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے ﴿ذلکم﴾ مبتدا اور اس کے بعد کا جملہ خبریہ بتلایا ہے۔ بعض نے کہا ہے ﴿لہ الملک﴾ مستقل جملہ ہے جو ﴿وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ ﴾ کے مقابلے میں ہے، جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔ ﴿قِطْمِیْرٍ﴾ کے معنی اکثر مفسرین کے نزدیک وہ سفید باریک سا چھلکا ہے جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا اطلاق گٹھلی کے درمیان میں لمبے نشان پربھی کرتے ہیں اور بعض نے گٹھلی کی پشت پر نقطہ مراد لیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اتنی سی حقیر چیز کے بھی مالک نہیں، جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّہِ لَا یَمْلِکُونَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَلَا فِیْ الْأَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِن شِرْکٍ وَمَا لَہُ مِنْہُم مِّن ظَہِیْرٍ ﴾ [2] ’’کہہ دے پکارو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کررکھا ہے، وہ نہ آسمانوں میں ذرّہ برابر کے مالک ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مددگار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا دوسرے معبودوں کی ملکیت کی نفی ہی نہیں کی بلکہ |