Maktaba Wahhabi

170 - 313
بلند ہوتی ہے۔ جسے صبح کاذب کہتے ہیں۔ یہ روشنی پورے مشرق میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے جسے صبح صادق کہتے ہیں۔ یہی روشنی پھر اوپر اٹھتی ہے اور اندھیرے کا پیچھا کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، تا آنکہ آسمان وزمین روشن ہوجاتے ہیں۔ رات کو دن میں داخل کرنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ موسمی تغیرات میں کبھی رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے موسم میں دن لمبا اور رات چھوٹی ہوتی ہے، حتی کہ دن چودہِ پندرہ گھنٹے کا ہو جاتا ہے اور رات نو، دس گھنٹے کی رہ جاتی ہے۔ یوں دن رات کا کچھ حصہ ایک دوسرے میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ لیل ونہار کی یہ تبدیلی اللہ ہی کے حکم سے ہے، اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ ﴿وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ﴾ سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے وہ طلوع وغروب میں اور اپنے آنے جانے میں اللہ کے مطیع ہیں اور یہ ان کی تسخیر تمام تر انسانوں کے فائدہ کے لیے ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ﴾ [1] تمہاری خاطر سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہے۔ وہ ’اجل مسمی‘ وقتِ مقرر تک چل رہے ہیں۔ ’’وقتِ مقرر‘‘ سے طلوع وغروب کا وقت بھی مراد ہے اور قیامت کا بھی، اور ان کا دورانیہ بھی جو سورج کا سال بھر میں اور چاند کا ایک ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔ ﴿ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ﴾ یہ اللہ ہے تمہارا پروردگار، جس نے یہ سارا نظام پورے ڈھب سے چلا رکھا ہے۔ ﴿لَہُ الْمُلْکُ﴾ بادشاہی اسی کی ہے۔ وہ اپنی بادشاہی میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے کسی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ مشرکینِ مکہ سمجھتے تھے کہ جن کی عبادت ہم کرتے ہیں اللہ نے انہیں اپنا شریک بنایا ہے۔ چناں چہ حج یا عمرہ کے موقع پر تلبیہ وہ یوں پڑھتے تھے:
Flag Counter