لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ﴾[1] ’’اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی چیزیں نکالو، جنھیں تم پہنتے ہو۔ اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ اس میں پانی کو چیرتی چلی جانے والی ہیں اورتاکہ تم اس کا کچھ فضل تلاش کرو، اور تاکہ تم شکرو کرو۔‘‘ ’مواخر‘ یہ مَخَرَ سے جمع ہے جس کے معنی پھاڑنے اور چھیلنے کے ہیں۔ یعنی کشتیاں سطح پانی کو پھاڑتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ اسی سے ’مَخَرَ الْمَائُ الْاَرْضَ‘ بولا جاتا ہے کہ پانی نے زمین کو چیر دیا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہو رہا ہے کہ تمہیں سمندروں سے گوشت، زیب وزینت کے لیے موتی اور مرجان، اور دوسرے دور دراز کے علاقوں میں اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سمندروں کو مسخر کردیا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کا شکر بجا لاؤ۔ یہاں بعض مسائل قابلِ غور ہیں، یہاں آبی جانوروں کے گوشت پر لحم کا اطلاق ہوا ہے۔ اب اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ میں ’’لحم‘‘ نہیں کھاؤں گا تو کیا وہ آبی جانوروں کا گوشت کھانے سے حانث ہوگا یا نہیں؟ اس مسئلہ میں فقہائے کرام میں اختلاف ہے راجح یہ ہے کہ وہ حانث نہیں ہوگا کیوں کہ عرفِ عام میں جب ’’لحم‘‘ یعنی گوشت کی بات ہوتی ہے تو ا س سے گائے، اونٹ، بکری ماکول اللحم جانوروں کا گوشت مراد لیا جاتا ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ [2] یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی قسم کھائے کہ میں ’’دابۃ‘‘ یعنی جانور پر سوار نہیں ہوں گا۔ کافر کو اللہ نے ’’شر الدواب‘‘ کہا ہے مگر اس کے باوجود وہ کافر کے کندھے پر سوار ہو تو حانث نہیں ہوگا کیوں کہ عرف میں جانور سے مراد حیوان جانور ہی ہوتا ہے انسان مراد نہیں ہوتا۔ |