دونوں سے نہیں بلکہ کھارے پانی سے ہی نکلتے ہیں۔ اسی طرح سورۃ الکہف [1] میں ہے ﴿نَسِیَاحُوْتَھُمَا﴾ کہ وہ دونوں مچھلی کا ذکر بھول گئے حالانکہ موسی علیہ السلام نہیں بلکہ یوشع علیہ السلام بھولے تھے یہی وجہ ہے کہ بعد کی آیات میں ہے کہ جب موسی علیہ اسلام نے کھانا طلب کیا تو یوشع علیہ السلام نے کہا ﴿فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْت﴾ ’’توبے شک میں مچھلی کا ذکر بھول گیا۔‘‘ انھوں نے نسیان کی نسبت صرف اپنی طرف کی ہے یوں نہیں کہا کہ ہم بھول گئے اسی طرح سورۃ ق[2] میں ہے﴿أَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ ﴾ یہاں بھی دوکے بارے میں یہ حکم نہیں بلکہ ایک ہی مراد ہے جو مجرم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح سات آسمانوں کا ذکر کر کے فرمایا گیا ہے: ﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوراً ﴾[3] اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا یہاں بھی ساتوں آسمانوں میں نہیں بلکہ ’فی احداھن‘ ان میں سے کسی ایک میں مراد ہے۔ یہ اور اس نوعیت کی دیگر مثالوں سے انھوں نے فرمایا: قرآنِ مجید میں کبھی واحد کا اطلاق واحد تشنیہ اور جمع پر ہوا ہے اسی طرح تشینہ کا اطلاق واحد پر اور جمع کا اطلاق بھی واحد پر ہوا ہے۔ شائقین الاتقان[4] النوع الثانی والخمصون ملاحظہ فرمائیں۔مگرجب سمندروں میں میٹھے پانی کے چشمے بھی پائے جاتے ہیں تو دونوں سے موتی نکلنے کا اطلاق بھی بعید نہیں اور الزجاج نے جیسا کہ کہا ہے دونوں کے ملنے اور مجموعہ کے مقام سے موتی برآمد ہوتے ہیں تو یہ بھی اسی کا مصداق ہے۔ اس کے علاوہ سمندر کو مسخر کردیا اس میں تمہارے جہاز اور کشتیاں سطحِ سمندر سے موجوں کو پھاڑتی ہوئی آگے نکل جاتی ہیں اور یوں زمین کے علاوہ ان سمندروں اور دریاؤں کو بھی تجارتی ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ بالکل یہی مضمون سورۃ النحل میں بھی بیان ہوا ہے: ﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَاج وَ تَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَ |