پانی ہوتا ہے۔ اور یہ بھی دونوں باہم خلط ملط نہیں ہوتے، دونوں کے مابین برزخ کی صورت یہاں بھی محسوس ہوتی ہے۔ ﴿وَ مِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا ﴾ اور ان دونوں سے یعنی میٹھے اور دریائے شور سے تمہیں تازہ گوشت کھانے کو ملتا ہے یعنی آبی جانوروں کا گوشت۔ بحری سفر میں جہاں گوشت حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے وہاں بھی تمہارے لیے یہ انتظام اللہ نے کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے پہننے کے لیے زیب وزینت کا سامان بھی تمہیں ان سے مل جاتا ہے۔ ’’حلیہ‘‘ کے معنی زیور کے ہیں۔ مراد موتی، مونگے وغیرہ جنھیں حسب حال زیور بناتے ہو۔ انگلیوں میں انگوٹھی کے نگینے، گلے کے ہار، پاؤں کی پازیبیں، ہاتھ کے کنگن اور تلوار کا قبضہ بناتے ہو۔ قرآنِ مجید کے ظاہری سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے لیے جیسے گوشت دونوں پانیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح زیور کا یہ سامان بھی دونوں پانیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک اور مقام پر ہے: ﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ ﴾[1] ’’ان دونوں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔‘‘ الزجاج نے تو کہا ہے کہ یہ موتی وہاں سے نکلتے ہیں جہاں سے میٹھا اور کھارا پانی باہم ملتے ہیں۔ مگر مبرد کا کہنا ہے کہ موتی صرف کھارے پانی سے برآمد ہوتے ہیں۔امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی یہی رائے ہے۔چنانچہ انھوں نے ’منھما‘ سے ’من مجموعھما‘ ان دونوں کے مجموعہ مراد لیا ہے۔[2] بلکہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ قرآنِ مجید میں جیسے فرد کا اطلاق فرد،تشنیہ ،جمع پر ہوا اسی طرح تشنیہ کا اطلاق فرد یعنی واحد پر بھی ہوا ہے اور اس کی امثلہ میں ایک مثال یہی ﴿یَخْرُجُ مِنْھُمَا الْؤلُؤْوَالْمَرْجَانِ﴾کی بھی دی ہے کہ موتی ومرجان درحقیقت |