﴿وَ یُسْقٰی مِنْ مَّآئٍ صَدِیْدٍ یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیْغُہٗ ﴾ [1] ’’اور اسے اس پانی سے پلایا جائے گا جو پیپ ہے، وہ اسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پیے گا اور قریب نہ ہوگا کہ اسے حلق سے اتارے۔‘‘ (اعاذنا اللہ منہا) یہاں بھی’یُسیغہ‘ اسی ’’س و غ‘‘ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ ملح اجاج: ’’ملح‘‘ کے معنی نمکین اور کھارا پانی کے ہیں۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ’’ملح‘‘ وہ پانی ہے جو کسی آمیزش کے بغیر نمکین ہو اور ’’مالح‘‘ اس پانی کو کہتے ہیں جس میں نمک ڈال کر نمکین بنایا گیا ہو۔ لیکن ’’ماء مالح‘‘ بہت کم استعمال ہوتا ہے جیسا کہ علامہ راغب نے مفردات میں کہا ہے۔ ’’اجاج‘‘ سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں۔ [2] اس آیت میں سمندروں کے میٹھے اور بہت کھاری اور نمکین پانیوں کا ذکر ہے۔ مگر دوسرے مقام پر اسی حقیقت کو ایک اور اسلوب میں بیان فرمایا ہے: ﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌج وَ جَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ﴾ [3] ’’اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا، یہ میٹھا ہے پیاس بجھانے والا اور یہ نمکین ہے کڑوا، اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط آڑ بنا دی ہے۔‘‘ اسی کا بیان سورۃ الرحمن میں یوں ہے: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ ﴾ [4] ’’اس نے دو سمندروں کو ملا دیا، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے وہ آگے نہیں جاتے۔‘‘ |