(فکر مندی کی ضرورت نہیں) میں نے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا، البتہ اس گھوڑے کو میں نے ’’بحر‘‘ پایا ہے ’ وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ‘[1] اسی طرح کسی کی وسعتِ علم کی بنا پر اسے ’’البحر‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض ائمۂ کرام کے بارے میں ’بَحْرٌ لَا سَاحِلَ لَہٗ ‘ کا جملہ وسعتِ علمی کے تناظر میں ہے۔ اسی طرح ’تبحر فی کذا‘ کے معنی ہیں کہ اس نے فلاں فن میں وسعت حاصل کرلی ہے۔ ’’عذب‘‘ کے معنی میٹھا اور خوشگوار ہیں۔ ’’فرات‘‘ کے معنی ہیں نہایت شیریں، پیاس بجھانے والا پانی۔ اور ’’سائغ‘‘ کا مادہ س و غ ہے جس کے معنی ہیں آسانی سے گلے سے اتر جانے والا۔ میٹھے پانی کی طرح دودھ کے بارے میں بھی فرمایا ہے: ﴿وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ ﴾ [2] ’’اور بلاشبہ تمہارے لیے چوپاؤں میں یقینا عبرت ہے، ہم ان چیزوں میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہیں، گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے حلق سے آسانی سے اتر جانے والا ہے۔‘‘ نہ اس میں گوبر کی بو نہ ہی خون کی رنگت، خالص سفید دودھ کہ اس میں پانی کی کثرت بھی اس کی سفیدی کو زائل نہیں کرتی۔ ’’سبحان اللہ‘‘ … کھانا کھانے کے بعد کی دعاؤں میں ایک دعا ہے: ’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَ وَسَقٰی وَسَوَّغَہٗ وَجَعَلَ لَہٗ مَخْرَجًا‘[3] ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا اور حلق سے بہ سہولت اتارا اور اس کے (فضلے کے) لیے نکلنے کا راستہ بنایا۔‘‘ جہنمیوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: |