﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ہٰذَا عَذْبٌ فَرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ مِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَا وَ تَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ﴾ (فاطر:۱۲) ’’اور دو سمندر برابر نہیں ہوتے، یہ میٹھا پیاس بجھانے والا ہے، جس کا پانی آسانی سے گلے سے اترنے والا ہے۔ اور یہ نمکین ہے کڑوا، اور ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زینت کا سامان نکالتے ہو جو تم پہنتے ہو اور تو اس میں کشتیوں کو دیکھتا ہے جو پانی کو چیرتی ہوئی چلنے والی ہیں، تاکہ تم اس کے فضل میں سے (حصہ) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں بھی دلیل آفاقی سے اللہ تعالیٰ کی توحید پر استدلال ہے کہ دو سمندر ہیں ایک میٹھا اور دوسرا کڑوا و نمکین۔ پانی ایک ہے مگر محض اللہ کے حکم سے ایک میٹھا ہے اور دوسرا کڑوا۔ جس طرح مرد وعورت کا نطفہ اللہ کے حکم سے بیٹا اور بیٹی کی صورت دھار لیتا ہے۔ یہاں بھی یہ تفریق اللہ کے حکم سے ہے اس میں کسی دیوی یا دیوتا کا یا کسی فرشتے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ البحران: ’’بحر‘‘ کا تثنیہ ہے اور ’’بحر‘‘ دراصل اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو۔ اور کبھی کسی چیز پر ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطورِ تشبہ ’’بحر‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ چناں چہ بہت زیادہ دوڑنے والے گھوڑے کو ’’بحر‘‘ کہہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کہ مدینۂ طیبہ میں دشمن کے حملے کا خوف پھیل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا طلب کیا جس کا نام ’’المندوب‘‘ تھا۔ آپ تن تنہا اس پر سوار ہو کر نکلے۔ واپس پلٹے تو فرمایا |