Maktaba Wahhabi

155 - 313
یا سات میں یاہ نوماہ میں یا دس ماہ میں۔ مدت ِحمل کی اس کمی بیشی کو وہی جانتا ہے۔ حمل کی کم سے کم مدت سات ماہ جو بسا اوقات دو سال سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ امام ضحاک بن مخلد دو سال بعد پیدا ہوئے اور ان کے دو دانت نکلے ہوئے تھے۔ [1] امام محمد بن عجلان رحمۃ اللہ علیہ تیسرے سال پیدا ہوئے تو دانت نکلے ہوئے تھے بلکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے ہاں ایک عورت کے تین بچے بارہ سالوں میں پیدا ہوئے اور ہر حمل چار سال کا ہوتا تھا۔[2] ﴿وَ مَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ ﴾ اور نہ کسی عمر پانے والے کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر ایک کتاب میں درج ہے۔ یعنی نوعِ انسانی میں سے جس کی عمر طویل ہوتی ہے یا کم، وہ لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور مفسرین نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ یہاں ’الا فی کتاب‘ پہلے جملے میں ’الا بعلمہ‘ کے قائم مقام ہے۔ کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے بلکہ ہر چیز پہلے سے لوحِ محفوظ میں درج کردی گئی ہے۔ ﴿وَ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ ﴾ سے مراد ’’عمرِ معمرَّ‘‘ ہے کہ کسی عمر پانے والے کی عمر کم نہیں ہوتی، یوں نہیں کہ اس کی عمر زیادہ تھی جسے کم کردیا جاتا ہے۔ بلکہ ابتدائً جس کی عمر لمبی تھی یا ابتدائً جس کی عمر کم تھی اس کا فیصلہ لوحِ محفوظ میں کردیا گیا ہے۔ امام سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہر ایک کی عمر کتنے سال ،کتنے ماہ، کتنے دن اور کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ ہے، لکھی جاتی ہے اور ﴿وَ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ ﴾ کا مفہوم ہے کہ عمر کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس کی عمر سے ایک گھنٹا کم ہوگیا، ایک دن، ایک ماہ، ایک سال کم ہوگیا۔ یوں وہ اپنی اجلِ مسمی کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی قول ابومالک اور حسان بن عطیہ وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ شاعر نے اس مفہوم میں کہا ہے:
Flag Counter