اسی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا ﴾[1] ’’پس جو شخص اپنے ربّ کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے۔ نیک عمل اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ لہٰذا جو اللہ سے ملاقات کا متمنی ہے وہ ایسے اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرے کہ ان میں کسی کی شراکت نہ ہو۔ نہ اپنے نفس کی نہ ہی کسی اور کی بلکہ وہ خالص اللہ ہی کے لیے کرے۔ حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ ‘[2] ’’جو لا الٰہ الا اللہ خالص ہو کر کہے گا جنت جائے گا۔‘‘ یہی کلمۂ اخلاص، کلمۂ طیبہ ہے۔ ﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ﴾ اس کی طرف ہر پاکیز بات چڑھتی ہے۔ کہ کلمہ طیبہ اور تسبیحات اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے۔ہر جگہ موجود نہیں جیسا کہ عموماً صوفیا کا موقف ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا مذکور ہے اور استوی یا مستوی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے۔یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمۂ فقہائے اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور محدثینِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا موقف ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہورقول ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’استوی‘‘ کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس کا مفہوم معلوم ہے اس کی کیفیت مجھول اور اس کے بارے میں |