Maktaba Wahhabi

147 - 313
اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ بعض نے ’’یرفعہ‘‘ کی ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اعمال کو بلندی عطا فرماتا ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے یہ ضمیر عمل صالح کی طرف ہے، کہ نیک اعمال کو عزت اور بلندی دیتے ہیں۔یہاں ان تمام معانی کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی عزت اور بلندی عطا فرمانے والے ہیں۔ کلمۂ طیبہ اور عملِ صالح کو ہی اللہ کے ہاں پذیرائی حاصل ہے اور اس کا اہتمام کرنے والے ہی لائقِ عز وشرف ہیں اور یہ ہے اصل عزت، اور یہ حاصل ہوتی ہے ایمان اور عملِ صالح سے، یا ذکر واذکار اور اعمالِ صالحہ سے، یوں عمل سے عمل قلبی ایمان، اللہ کی محبت اور عمل بدنی دونوں مراد ہیں۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر ایمان اور عمل صالح کاذکر لازم وملزوم کی حیثیت سے ہوا ہے۔ جس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عمل کے بغیر تنہا ایمان سے ہمیشہ کے عذاب سے تو وہ بچ جائے گا مگر مکمل مقبولیت اور کامل نجات ایمان اور عمل صالح کی بدولت ہی حاصل ہوگی اور اگر کوئی اعمالِ صالحہ تو کرتا ہے مگر دولتِ ایمان سے محروم ہے تو آخرت میں اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور عملِ صالح بھی کرتا ہے مگر اس کے ساتھ غیر اللہ کی عبادت، ان کی نذر ومنت بھی پوری کرتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل اس کی تکذیب کرتا ہے، بلکہ اس کا ایمان ’’کلمۂ طیبہ‘‘ نہیں، ایمان کے لیے ’’اخلاص‘‘ شرط ہے اور ایسے شخص کا ایمان اس سے تہی دامن ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾ [1] ’’اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘
Flag Counter