اللہ کے حضور پیش ہونے کا ہے۔ کچھ اعمال ایسے ہیں کہ ان کے کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں کے سامنے کرتے ہیں اور جہاں تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی سند کا معاملہ ہے تو اسے ضعیف کہنے کی کوئی معقول وجہ سامنے نہیں آئی۔ ہم نے اس کے ایک ایک راوی کو پرکھا اور جانچا ہے۔ اس کی سند حسن درجہ سے کم نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جو احادیث تمہیں بیان کرتے ہیں۔ تمہیں ان کی تصدیق ہم کتاب اللہ سے کروا دیتے ہیں۔ بندۂ مسلم جب ’ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرٗ تَبَارَکَ اللّٰہُ ‘ پڑھتا ہے تو ان کلمات کو فرشتہ اپنے پروں کے نیچے لے کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے، فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتا ہے وہ ان کلمات کو کہنے والوں کے لیے بخشش ومغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کلمات اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہی آیت ﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ﴾ تلاوت فرمائی۔[1] حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اللہ کا جلال، اس کی تسبیح، اس کی حمد، اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے یہ کلمات عرش کے اردگرد طواف کرتے ہیں اور ان کی بھنبھناہٹ شہد کی مکھیوں کی طرح ہوتی ہے اور یہ کلمات کہنے والوں کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہارے ربّ کے سامنے کرتا رہے۔[2] بعض حضرات نے ’’یرفعہ‘‘ کی ضمیر فاعل ﴿ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ﴾ کو بنایا ہے اور مراد کلمۂ ایمان وکلمۂ توحید لیا ہے، کہ ایمان ہو تو یہ عملِ صالح کو اوپر لے جاتا ہے ورنہ |