یہ کلمۂ طیبہ، اللہ کی طرف صعود کرتا ہے اور یہی اللہ کے قرب کا اوّل ذریعہ ہے۔ کلمہ اپنے متکلم سے ہے، اس کا اپنا وجود نہیں، اس لیے صعود کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد اللہ کے ہاں قبولیت اور پزیرائی ہے یا یہ کہ اس سے مراد کراماً کاتبین کے صحائف ہیں جو وہ اوپر لے جاتے ہیں۔ مگر صحیح یہ ہے کہ فرشتے ان کلمات کو اوپر لے جاتے اور عرشِ الٰہی کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں ذکر ہے۔ انہی روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے ’’کلمۂ طیبہ‘‘ سے مراد تسبیح وتحمید وتہلیل بھی ہے دعا اور تلاوتِ قرآن کو بھی بعض نے کلمۂ طیبہ قرار دیا۔ اسی کلمۂ توحید، ذکر واذکار کو ’العمل الصالح یرفعہ‘ عمل صالح بلند کرتا ہے یہی تفسیر جمہور مفسرین سے منقول ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ ’’الکلم الطیب‘‘ سے مراد ذکر اللہ ہے اور ’’العمل الصالح‘‘ سے مراد فرائض ہیں۔ جو شخص فرائض کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہے اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ کی طرف بلند کرتا ہے اور جو اللہ کا ذکر کرتا ہے مگر فرائض ادا نہیں کرتا اس کا کلام اس کے عمل لوٹا دیا جاتا ہے۔ [1] یعنی جو فرض نمازوں کی پابندی نہیں کرتا اس کا محض ذکر بلندیوں سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ بلندی تبھی میسر آتی ہے جب ذکر کے ساتھ فرائض کا بھی اہتمام ہو۔ جس طرح عمل کی قبولیت کے درجات ہیں اسی طرح ذکر اور اعمالِ صالح کے اوپر جانے کے بھی درجات سمجھنے چاہیئیں۔ مگر علامہ ابن عطیہ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی سند صحیح نہیں۔ اہلَ حق اہلِ سنت کا موقف اسے ردّ کرتا ہے، کیونکہ صحیح یہ ہے کہ فاسق جو فرائض کا تارک ہے۔ وہ ذکر کرتا ہے تو اس کا عمل لکھا جائے گا۔ اس کا اسے اجر وثواب ملے گا، اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کے ذکر واذکار اور کلمات طیبات کو قبول کرتا ہے، جو شرک سے اجتناب کرتا ہے۔ (المحرر الوجیز) علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی علامہ ابن عطیہ رحمہ اللہ کی تائید کی ہے۔ حالاں کہ یہاں مسئلہ اجر وثواب کے ملنے کا نہیں بلکہ ذکر اور اعمالِ صالحہ کے اوپر چڑھنے اور |