’’تین چیزیں جس میں ہیں اس نے ایمان کی مٹھاس پالی، (۱) یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں، (۲) یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے محبت کرے، (اس میں اپنے نفس کا کوئی شائبہ نہ ہو) (۳) یہ کہ وہ ناپسند جانے کہ میں پھر کفر کی راہ پر چل نکلوں، جیسا کہ وہ ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔‘‘ اسی حلاوتِ ایمان اور ایمان کے ذائقہ کو ’’طیب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ کلمہ طیبہ، اللہ کی طرف صعود کرتا ہے اور یہی اللہ کے قرب کا اوّل ذریعہ ہے۔ اس کلمہ کو ’اَلعَمَلُ الصَّالِحُ یُرْفَعُہٗ ‘ عمل صالح بلند کرتا ہے۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری، مجاہد، سعید بن جبیر اور جمہور مفسرین رحمۃ اللہ علیہم سے منقول ہے کہ کلمہ ایمان کو جو چیز رفعت بخشتی ہے وہ عملِ صالح ہے۔ حتی کہ حضرت حسن اور قتادہ تو فرماتے ہیں: ’لَا یُقْبَلُ قَوْلٌ اِلاَّ بِعَمَلٍ‘ کہ قول یعنی کلمہ، عمل کے بغیر مقبول نہیں۔قاضی ایاس بن معاویہ بھی فرماتے ہیں: عمل نہیں تو ذکر اور نہیں لے جایا جاتا۔ [1] ایمان قول وعمل کا نام ہے اور عمل سے عمل قلب وجوارح، دونوں مراد ہیں اسی لیے سلف کے نزدیک ایمان تصدیقِ قلب، اقرارِ لسان اور عمل بالجوارح کا نام ہے۔ اور عمل کے لیے قلب میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت بھی شامل ہے۔ ایمان کا مرکز دل ہے، زبان دل کی ترجمان ہے، اور زبان کی سچائی کا علم عمل سے ہوتا ہے کہ اپنے قول میں پختہ ہے یا زبانی جمع خرچ ہے۔ ’والعمل الصالح یرفعہ‘ سے واضح ہوتا ہے اعمالِ صالحہ، ایمان کو کمال بخشتے ہیں اور اسے رفعت اور بلندی سے سرفراز کرتے ہیں۔ ان کے بغیر ایمان ناقص اور ادھورا ہے۔ اور اسی کو سلف نے ’اَلِایْمَانُ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ایمان میں اضافہ کا سبب آیات اللہ پر غور وتدبر بھی ہے، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ سے بھی اور اعمال پر مداوت سے بھی۔ وَفَّقَنَا اللّٰہُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی |