’بِاِذْنِ رَبِّہَا‘ اس کے ربّ کے حکم سے ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں بھی ایمان کو کلمۂ طیبہ کہا گیا ہے۔ ’’طیبہ‘‘ کے معنی ایسی پاکیزہ چیز کے ہیں جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی۔ [1] کلمۂ توحید سے بھی عقلِ سلیم لذت محسوس کرتی ہے اور ایک اللہ کا ہو رہنے میں سرشاری نصیب ہوتی ہے ؎ غرور انہیں ہے تو مجھ کو بھی ناز ہے اکبر سوا خدا کے سب ان کا اور خدا میرا وہ پکار اٹھتا ہے: ’’تم کٹتے ہو کٹ جاؤ روٹھتے ہو روٹھ جاؤ۔‘‘ ﴿حَسْبِیَ اللّہُ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم﴾ [2] ’’مجھے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں،میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔‘‘ اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں، پھر بھی احد، احد پکارتا ہے۔ حدیث میں بھی اسے ایمان کے ذائقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَبِالْاِسْلَامِ دَیْناً وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیّاً۔‘ [3] ’’اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو راضی ہوا اللہ سے کہ وہ میرا ربّ ہے، اسلام میرا دین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں۔‘‘ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ثَلَاثٌ مَنْ کَانَ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ، أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا، وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لاَ یُحِبُّہٗ اِلاّ لِلّٰہِ، وَأَنْ یَکْرَہٗ أَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ‘[4] |