﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے عزت پانے کا اصل ذریعہ، کہ اللہ کی طرف بلند ہونے والا کلمۂ طیبہ یعنی کلمۂ ایمان اور کلمۂ توحید ہے۔ جس کی شہادت مسلمان دیتا ہے۔ اس کلمہ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ تُؤْتِیْ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍم بِاِذْنِ رَبِّہَا﴾ [1] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے، وہ اپنا پھل اپنے ربّ کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے۔‘‘ گویا ایمان کا یہ شجرۃ طیبہ سدا بہار ہے۔ ہر لحظہ اس سے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسینہ کے پھول کھلتے اور پھل ملتے ہیں۔ مضبوط درخت، مضبوط جڑ، مضبوط تنا اور بلند وبالا ہری بھری ٹہنیوں کا نام شجرۃ طیبہ ہے۔ اسی طرح ایمان بھی معرفتِ قلب، اقرار لسان اور اعمالِ حسنہ کا نام ہے۔ درخت کی جڑ جتنی گہری ہو اتنا ہی وہ مضبوط، اسی طرح ایمان جس قدر مضبوط ہوگا پائے استقلال میں جنبش نہیں آئے گی۔ ہر قسم کے مصائب وآلام کے طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑیں گے، شرک وبدعت کے جھاڑ جھنگاڑ سے وہ متاثر نہیں ہوگا۔ ہمیشہ پھل دار درخت کی طرح اس کے اعمالِ صالحہ میں انقطاع نہیں، بلکہ تسلسل اور مداومت ہوگی۔ درخت کے پھلوں سے انسان مستفید ہوتے ہیں تو اس شجرۃ طیبہ کے مصداق مومن کے اخلاق وکردار سے بھی انسان متاثر ہوتے ہیں۔ اور ’ اَلْمُسْلِمُ مِنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ‘، اور ’خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعھُمْ النَّاسِ‘ کے مطابق لوگ اس سے نفع پاتے ہیں۔ پھر یہ سب بہار اللہ کی توفیق اور اس کے لطف وکرم سے ہے۔ یہ کسی کے ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ |