﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَ الَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ ﴾ (فاطر:۱۰) ’’جو شخص عزت چاہتا ہے سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پاکیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہوگی۔‘‘ یہ آیت بھی پہلی آیات کے تناظر میں ہے جن میں مختلف انداز میں توحید اور قیامت کا ذکر ہے۔ مشرکینِ قریش سمجھتے تھے کہ اللہ نے ہمیں عزت دے رکھی ہے، حرمِ کعبہ کی تولیت کا اعزاز ہمیں حاصل ہے، اور سارے عرب میں ہماری عزت بنی ہوئی ہے۔ مال واولاد کی نعمتوں سے ہمیں اللہ نے سرفراز فرمایا ہے۔ اور جن معبودوں کی ہم عبادت کرتے ہیں ان کے طفیل ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہے: ﴿مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾ [1] ’’ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔‘‘ اور یہ بھی کہتے تھے کہ: ’’ہمارے یہ معبود اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘[2] وہ سمجھتے تھے کہ یہ ساری عزتیں انہی کی عبادت کے نتیجہ میں حاصل ہیں۔ جیسے ایک جگہ ارشاد فرمایا: |