﴿وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ﴾ [1] ’’اور ہم نے پانی سے ہرزندہ چیز بنائی۔‘‘ لہٰذا آخرت میں زندگی اسی طرح ہے جیسے مردہ زمین کی حیات ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’کذلک النشور‘ میں مشابہت کئی اعتبار سے ہے۔ ۱: زمین کو جس طرح زندگی ملتی ہے اسی طرح اعضا انسانی کو زندگی ملے گی۔ ۲: جس طرح ہوا سے بادلوں کو جمع کیا جاتا ہے اسی طرح بکھرے ہوئے اعضاء کو جمع کیا جائے گا۔ ۳: جس طرح ہوا اور بادل کو ارضِ میت کی طرف لے جایا جاتا ہے اسی طرح ارواح کو مردوں کے ابدان کی طرف لے جایا جائے گا۔ ’’النشور‘‘ یہ ’’نشر‘‘ سے ہے جس کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں۔ اور یہ صحیفے کے پھیلانے، بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردینے پر بولا جاتا ہے۔ (المفردات) مرنے والے بھی قبروں سے اٹھ کر میدانِ محشر میں پھیل جائیں گے اس لیے آخرت میں از سرِ نو زندگی پر ’’نشور‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دن کے بارے میں بھی فرمایا ہے: ﴿ وَّ جَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا﴾ [2] ’’اور دن کو اٹھ کھڑا ہونا بنایا۔‘‘ کیوں کہ دن کو کاروبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لیے بنایاہے۔ |