کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ برائی کو سب اچھا سمجھنے والوں سے ہدایت کی کوئی امید نہیں۔ آپ ان کی فکر میں اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالیں۔ جو اس حد تک اپنے آپ کو بگاڑ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے ہدایت کی توفیق ہی سلب کرلیتے ہیں۔ شیطان کفروشرک اور فسق وفجور کو ہی خوبصورت رنگ نہیں دیتابلکہ نیکی کے نام سے بدعات کو بھی مزین بناتا اور رواج دیتا ہے۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ: ’البدعۃ رجب الی ابلیس من المعصیۃ‘[1] ’’کہ شیطان کے نزدیک فسق وفجور سے بدعت زیادہ محبوب ہے ۔‘‘کیونکہ انسان گناہوں سے پلٹ آتا ہے مگر بدعت کو نیکی سمجھ کر کرتا اس لیے اس سے بچنا اور اسے چھوڑ دینا نہایت مشکل ہے۔ اس آیت کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلی آیت میں کافر اور مومن کے مابین فرق بیان ہوا ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ ایک کا مقدر عذابِ شدید ہے اور دوسرے کا مغفرت اور اجرِ کبیر ہے۔ اس آیت میں بھی اس فرق کو نمایاں کیا گیا ہے کہ کیا جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو برائی کو برا ہی سمجھتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس اسلوب کی بھی کئی مثالیں ہیں۔ چناں چہ ایک جگہ فرمایا: ﴿اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہِ کَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ وَاتَّبَعُوْا اَہْوَائَ ہُمْ ﴾[2] ’’کیا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہے اس شخص کی طرح ہے جس کے لیے اس کے برے اعمال مزین کردیے گئے اور انہوں نے اپنی خواہشوں کی پیروی کی؟‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: |