’ وَعِزَّتِکَ لَا اَبْرَحُ اَغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ اَرْوَاحُہُمْ فِیْ اَجْسَادِہِمْ‘[1] ’’اے اللہ! تیری عزت کی قسم، میں ہمیشہ انہیں گمراہ کروں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں ہوں گی۔‘‘ جس دشمن نے یوں قسمیں کھا کر اولادِ آدم کو بد راہ کرنے کا عزم کررکھا ہو، اس کی دشمنی میں بھی کوئی شک ہوسکتا ہے؟ اس نے تو اولادِ آدم کے خلاف اعلانِ عداوت کررکھا ہے یہ باغی اللہ تعالیٰ کا تھا مگر دشمنی اولادِ آدم سے ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کی وجہ سے رندہ درگا بنا ہے۔اسی قرآنِ مجید میں اسے آٹھ بار ﴿عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴾ اور ایک جگہ ﴿عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ ﴾ کہا ہے کہ وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَ ہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلاً ﴾[2] ’’تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالاں کہ وہ تمہارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل بُراہے۔‘‘ یعنی شیطان اور اس کے پیروکار تمہارے دشمن ہیں۔ میں نے تو تمہارے باپ آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروا کے عزت بخشی اور شیطان نے تمہارے باپ کی تعظیم وتکریم سے انکار کردیا۔ اور الٹا متکبرانہ انداز میں ہمیشہ مقابلے کی اور اولادِ آدم سے دشمنی کی ٹھان لی۔ اندریں حالات تم مجھے چھوڑ کر شیطان کے دوست بن جاؤ تو تمہارا یہ تبادلہ بہت برا ہے۔ دوستی کا حق دار میں ہوں نہ کہ شیطان، بھلا کوئی عقل مند اپنے دشمن سے بھی دوستی کا تصور کرسکتا ہے؟ |