﴿اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ﴾ (فاطر:۶) ’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہوجائیں۔‘‘ جس بڑے دھوکہ باز کا پہلی آیت میں ذکر ہے اسی کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس کی اطاعت سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور آخرت میں جہنم جانے کا سبب ہے۔ اس نے تمہارے باپ آدم اور ماں کو جنت سے نکلوایا، پھر اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کا یوں عزم ظاہر کیا: ﴿لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ ﴾[1] ’’میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرفوں سے اور ان کی بائیں طرفوں سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا۔‘‘ ایک اور مقام پر اس کی اسی جسارت کا ذکر یوں ہے: ﴿وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً وَلأُضِلَّنَّہُمْ وَلأُمَنِّیَنَّہُمْ وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الأَنْعَامِ وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَ انَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّہِ |