﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفاَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا﴾[1] ’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض، بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا ہے۔‘‘ مختلف اسانید سے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ یَا أَبَا ذَرِّ ہَلْ تَعَوَّذْتَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیَاطِیْنِ الْاَنْسِ وَالْجِنِّ؟ قُلْتُ: لَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَہَلَ لِلْإنْسِ مِنْ شَیَاطِیْنَ؟ قَالَ! ’نَعَمْ ہُمْ شَرُّ مِنْ شَیَاطِیْنِ الْجِنِّ‘[2] ’’اے ابوذر رضی اللہ عنہ کیا تو نے شیاطین انس وجن سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا انسانوں میں شیاطین ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ،وہ شیاطین جن سے برے ہیں۔‘‘ جس طرح شیاطین، انسان کو گمراہ کرتے ہیں اسی طرح بعض انسان، انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صالحین کی ہم نشینی کی ترغیب دی ہے اور برے اور معصیت میں پھنسے ہوئے لوگوں سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ شیطان جہاں کفر وشرک میں مبتلا کرتا ہے کبائر اور معصیتوں میں پھنساتا ہے وہاں افضل عمل چھڑوا کرمفضول اعمال میں انسان کو خوش رکھتا ہے۔ سنت کی جگہ بدعت پر آمادہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مکر وفریب سے محفوظ رکھے۔ شیطان کے مکائد کیا ہیں اور کن کن صورتوں میں وہ گمراہی میں مبتلا کرتا ہے۔ شائقین اس کی تفصیل علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی’’ تلبیس ابلیس‘‘ اور حافظ ابن قیم کی ’’اغاثۃ اللہفان ‘‘میں ملاحظہ فرمائیں۔ |