دھوکا دیا۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور اس دغا باز نے تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دیا۔‘‘ شیطان نے منافقوں کو جن آرزوؤں میں مبتلا کیا اس کا خلاصہ اس آیت میں بیان ہوا۔ انتظار کرو، محمد کی پیروی میں جلدی کیا ہے۔ کفر کو غلبہ حاصل ہوا تو ان کے ہو رہنا۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کامیاب ہوئے تو تم بھی انہیں تسلیم کرلینا، شیطان نے انہیں اس شک میں بھی مبتلا کردیا تھا کہ دیکھو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے ہیں یا نہیں۔ ان کی دعوت سچی ہے یا نہیں، اسی طرح قرآن اور آخرت کے بارے میں بھی شک میں مبتلا کردیے گئے تھے۔ اسی کشمکش میں انہیں موت نے آلیا اور دھوکے باز کے دھوکہ میں پھنس کر اپنی آخرت برباد کرلی۔ اسی دھوکہ باز کی پیروی کے انجام سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا یَعِدُہُمْ وَ یُمَنِّیْہِمْ ط وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا اُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ ز وَ لاَ یَجِدُوْنَ عَنْہَا مَحِیْصًا ﴾[1] ’’اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقینا اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ۔ وہ انہیں وعدے دیتا ہے اور انہیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔ یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے۔‘‘ شیطان کے علاوہ ہر وہ چیز جو انسان کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کردے اس پر بھی ’’غرور‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے چنانچہ دنیا، خواہشِ نفس، مال وجاہ میں پھنس کر انسان عموماً صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ شیطان کے ساتھ شیاطین نما انسان بھی یہی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخری سورت میں ’’من الجنۃ والناس‘‘ جنوں اور انسانوں سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: |