Maktaba Wahhabi

111 - 313
ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فرمایا ہے۔ آئندہ کی آیت مبارکہ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اسی دھوکہ باز نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا ہے: ﴿فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ﴾ (الاعراف:۲۲) ’’پس اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار لیا۔‘‘ قسمیں کھا کر یقین دلاتا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ آدم علیہ السلام کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے وہ اس کے بھرّے میں آگئے اور جس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا اس کا پھل کھا لیا۔ جس کے نتیجے میں جنتی لباس اتر گیا اور جنت سے بھی نکال دئیے گئے۔ شیطان کا ’’غرور‘‘ یہ ہے وہ معصیت میں مبتلا کرکے یہ دلاسا دیتا ہے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے۔ وہ چھوٹے بڑے سب گناہ اپنی کریمی ورحیمی سے معاف کردے گا۔ کبھی کہتا ہے کہ ابھی بڑا وقت ہے جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ عیش وعشرت سے زندگی بسر کرو، اس کے بعد توبہ کرلینا۔ کسی مسئلہ میں علماء کے جائز وناجائز ہونے میں اختلاف کو بہانہ بنا کرنا جائز کام کرواتا ہے۔ کبھی صغیرہ وکبیرہ کی تقسیم کی بنا پر گناہ کرواتا ہے۔ اور کبھی شفاعت کے دلاسے دیتا ہے۔ قیامت کے دن مؤمن اپنے نورِ ایمان میں چلتے ہوئے جنت میں جائیں گے۔ ان کے اور منافقوں کے مابین دیوار حائل ہوجائے گی، منافق کہیں گے کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہ تھے: ﴿قَالُوْا بَلٰی وَ ٰلکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْکُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ ﴾ [1] ’’مؤمن کہیں گے کیوں نہیں، لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں ڈالا، تم انتظار کرتے رہے اور تم نے شک کیا اور (جھوٹی) آرزوؤں نے تمہیں
Flag Counter