Maktaba Wahhabi

108 - 313
تعالیٰ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک مردار اور مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ اللہ چاہتے تو تمام کفار کے گھروں کو، ان کے مکانوں کی سیڑھیوں کو سونے چاندی کا بنوا دیتے مگر ایسا اس لیے نہیں کیا کہ انسان اسی کو اپنی معراج سمجھتے ہوئے راہِ کفر اختیار نہ کرلیں۔ اور اس لیے بھی کہ یہ ایک دوسرے کے معاملات میں باہم معاون اور مددگار بن جائیں۔ ایک کارخانہ اور فیکٹری چلانے کے لیے مالک کو فورمین کی، مزدور کی، اور نگران کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبھی مالک ومختار ہوں تو کاروبارِ زندگی ہی معطل ہو کر رہ جائے۔ اللہ کے ہاں یہی حکمتیں معیشت کی تقسیم میں کار فرما ہیں۔ بندۂ مومن کو دنیا کی فراوانی پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس کے پیچھے پڑ کر ایمان اور عمل صالح کی زندگی ترک نہیں کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ دنیا میں انسان اللہ کی عبادت واطاعت کے لیے آیا ہے۔ اور یہ زادِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ جو یہاں زادِ آخرت تیار نہیں کرتا بلکہ اسے لہو ولعب میں گزارتا ہے اسی کے لیے یہ دھوکے کا سامان ہے۔ مال ودولت اللہ تعالیٰ کی عطا اور ’’فضل‘‘ ہے۔ اس لیے اللہ کے فضل کی مذمت بے جا ہے۔ قابلِ مذمت تو وہ ہے جو اللہ کے فضل پر حمد وشکر کی بجائے تمرد اختیار کرتا ہے اور ناشکری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے اللہ کے حکم کی تعمیل میں خرچ نہیں کرتا بلکہ حرام راہوں میں اُڑاتا ہے اور جہنم کا ایندھن بنتا ہے جب کہ بندۂ مومن اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے جنت خرید لیتا ہے۔ اس لیے دنیا طلبی دھوکا نہیں، نہ ہی یہ باعثِ مذمت ہے۔ مومن دنیا وآخرت دونوں کی بہتری وبھلائی کا طلب گار ہے۔ ﴿رَبَّنَآ ٰاتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً﴾ [1] ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے۔‘‘ باعثِ مذمت تو یہ ہے کہ وہ اس میں مگن ہو کر دنیا میں آنے کا مقصد ہی بھول
Flag Counter