’’اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مر جائے۔کیونکہ نہیں!وعدہ ہ اس کے زمے سچا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ قیامت کا انکار منکرین کی طرف سے ہر دور میں ہوا ہے جس کا بیان قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔[1] انبیائے کرام میں یہ تینوں عقیدے مشترک رہے ہیں۔ اور مخاطبین ان تینوں کا انکار کرتے تھے۔ کفارِ مکہ بھی اپنے پیش رو کی طرح ان تینوں کے منکر تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی حوالے سے ان کی اسی ضد اور ہٹ دھرمی پر آپ کی تسلی وتشفی کے طور پر فرمایا ہے: کہ آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے ہیں۔ جیسے ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ ﴾ [2] ’’تجھے نہیں کہا جائے گا مگر وہی جو ان رسولوں سے کہا گیا جو تجھ سے پہلے تھے۔‘‘ اس لیے ان کی تکذیب سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں، صبر واستقلال سے اپنا فریضہ پورا کرتے رہے۔ ﴿وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ﴾ فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس تکذیب کا وہ عنقریب مزہ چکھ لیں گے۔ جس مالک کے حکم سے آپ اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔ سارے معاملات اس کے سامنے ہیں اور انجامِ کار بھی اسی کے پاس ہے، نیک اور بد سب اسی کے حضور حاضر ہونے والے ہیں۔ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلا ملے گا آپ اللہ کے بھروسہ پر اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں۔ یہاں ﴿تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ﴾ سے مراد تمام امور کی تدبیر نہیں بلکہ فیصلہ ہے کہ فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِن شَیْء ٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللَّہِ ذَلِکُمُ اللَّہُ ﴾[3] اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ‘‘ |