ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن،خلاف قانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔خود سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اپنے نافذ العمل فیصلہ میں لکھا ہے: ’’ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو،لازم ہے کہ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں ، خاندان اور دنیا کی ہر محبوب ترین شَے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘[1] کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے،اگر وہ ایسا دل آموز مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے،سننے،پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جئ شان میں بےحد توہین کی)تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔کیااس صورت میں ا نتظامیہ اس کی جان،مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ،بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہےتو یہ اعلانیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کی بےحرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے،جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے۔اور یہ چیز نقص امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے جس کے نتیجہ میں جان ومال کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ’’ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں جو اپنی شخصیات،مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب،القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامناکرنا پڑےگا۔آخر کار ہندؤں ،عیسائیوں ،سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب بنا رکھے ہیں ۔‘‘(ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718 ء) افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے،اس صورت حال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کوآئین اور قانون کا پابند بنائے۔ |