10.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانے اور صحابہ کے نقش قدم چلنے کا حکم : 20.﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا﴾( الاحزاب: 21) ترجمہ: ’’(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔‘‘ 21.﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ترجمہ:’’ وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘(التوبة: 100) اللہ رب اللعالمین نے اہل ایمان کے لئے محض سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو معیار ہدایت قرار دیتے ہوئے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دلائی ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کی بعثت کا امکان ہوتا تو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے جنات نعیم کے وعدے نہ ہوتے بلکہ اس ممکنہ نبی کی اتباع کا حکم دیا جاتا، کیونکہ صحابہ تو فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے انبیاء پر ایمان لائے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی پر ایمان کا ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں کوئی تصور تک نہ تھا، اور صحابہ کے بعد پوری امت کو صحابہ جیسے ایمان ہی کا حکم دیا گیا اور ان کی اتباع کی ترغیب دلائی گئی ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل ہے۔ |