Maktaba Wahhabi

266 - 290
مرزا کے اس واقف کار(جس کا نام مؤلف تذکرۃ المہدی نے درج نہیں کیا)کے الزام کا کوئی جواب پیر صاحب سے بن نہ سکا اور لاجواب ہوکر اسےزور سے تھپڑ دے مارا۔ اس واقعہ سے مرزا کی سیرت اور طہارت وپاکیزگی پر کیا روشنی پڑتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ہم نے جو بات عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ احمداکیڈمی حیات مارکیٹ گول بازار ربوہ نے حال ہی میں اس کا ایک تازہ ایڈیشن شائع کیا ہے جس کی طباعت عمدہ اور خوبصورت جلد بندی ہے اورنئے سرے سے کمپوزنگ کروا کر دونوں حصوں کو 314 صفحات میں شائع کیا گیا ہے مگر اس کے صفحہ 111 میں نہایت بددیانتی سے کام لے کر مذکورہ عبارت کوکاٹ کر اس کی جگہ پر نقاط لگادیے گئے ہیں ۔ ممکن ہے کہ قادیانی یہ کہہ دیں کہ یہ قول ایک مخالف اور مرزا کے منکر کا تھا جس کی اشاعت ہم پر لازم نہ تھی مگر ہم ان محرفین سے عرض کرتے ہیں کہ کسی بھی کتاب کوشائع کرتے وقت مصنف کے لیے تو عبارت میں واضافہ کرنا بددیانتی ہے۔مصنف کو خود تو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ طبع ثانیہ پر اس میں نظر ثانی کرکے کانٹ چھانٹ کردےمگر بعد کے کسی بھی شخص کو یہ حق دینا عدل وانصاف کے منافی اور بے ایمانی ہے ۔قرآن مجید میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا سخت سےسخت قول نقل کیا ہے تو کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ (نعوذباللہ)قرآن سے ایسی آیات باہر نکال دیں ؟کتب حدیث میں بھی ایسے واقعات موجود ہیں جن میں منکریں نبوت محمدیہ علیہ التحیۃ والسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت سے سخت اعتراض کیےہیں ۔ علمائے امت نے ان اقوال کا جواب تودیا ہے مگر کتب حدیث میں تحریف نہیں کی،اس لیے کہ انہیں تحریف جیسے فعل کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ کفار کے اعتراض نہایت سطحی تھے جو غلط فہمی اور عدم علم اور کثرت جہل سے پیدا ہوئے تھےاور جب ان لوگوں کو معقول جواب مل گئےتوکفارنے بھی ان اعتراضات کو غیرمعقول سمجھ کر ترک کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کفار کے اعتراضات ہر دور میں مختلف تھے۔اس تمہید کے بعد سنیے کہ قادیانیوں کے پاس اس اعتراض کا جواب نہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حاشیہ میں وضاحت کی بجائے تحریف کا راستہ اختیار کیا۔
Flag Counter