Maktaba Wahhabi

186 - 290
(الف)۔۔۔میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ (ب)۔۔۔میں آپ کے ہاتھ سےبہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی اور وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں ۔جن کا وجود دنیا کے مسکنت نقصان رساں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ اگر بقول اورحسب دعویٰ مرزا صاحب یہ کل بحث ہی صرف اس دعویٰ پر مبنی ہے کہ وہ مسیح موعود مامور خداوند تعالیٰ تھے اور فی الواقعہ ایسی مصیبت میں تھے۔جیسا کہ اشتہار میں درج ہے تو میری رائے ناقص میں حقیقت الوحی ص18(خزائن ج22 ص21)کے الفاظ ذیل ان پر عائد ہوتے ہیں ۔ ’’جب ان کے (مقبولین کے) دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتےہیں تو خدا ان کی سنتا ہے اوراس وقت ان کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح سےکامل مقبولوں کے ذریعے سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے خدا کے نشان تب ہی ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے مقبول ستائے جاتے ہیں جب حد سے زیادہ ان کو دکھ دیا جاتا ہے تو سمجھ کہ خدا کا نشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر۔‘‘ پس اشتہار کی عبارت سے حددرجہ کی مصیبت اور بے قراری ٹپکنی ہے تو حسب الفاظ بالاکاتب اشتہار کے ہاتھ کو اگر خدا کا ہاتھ تصور کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔سوائے اس امر کے کوئی معتقد شخص اپنے مذہبی اصولوں کی طرف داری میں یہ نہ کہے کہ مقبولین کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور سب کاموں کے واسطے ہوتا ہے سوائے تحریر کے کاموں کے اور یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جب کہ چھوٹے چھوٹے اوربہت خفیف خفیف مسائل دینی اور امور ات دنیاوی میں تو خدا کا حکم ہووے اور ایک ایسا اہم معاملہ جو کہ مرزا صاحب کے کل مشن کے متعلق تھا وہ بلا حکم خدا ہووے۔ میر قاسم علی صاحب نے اپنی بحث میں فرمایا ہے کہ فریق ثانی نے کوئی ایسا حکم پیش نہیں کیا جس میں مرزا صاحب کو خدا نے یہ حکم دیا ہوتا کہ تم ایسی درخواست ہمارے حضور میں پیش کرو۔ میری رائے ناقص میں بحکم خداوندی کے یہ معنی ہرگز نہیں کیے جاسکتے کہ خداوند تعالیٰ اپنے ماموروں کو
Flag Counter