Maktaba Wahhabi

23 - 42
سے خوف کھائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوتاہی،لاپرواہی اور بری بات پر ہر شخص کو اپنے قائد کا خوف ہو کہ وہ کسی بھی صورت معاف نہیں کرے گا۔اور یہ چیز صرف اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے کہ قائد بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر عمل کرنے والا ہو اور لوگوں سے بھی عمل کروانے والا ہو۔جب کبھی کسی کا کوئی بھی عمل اللہ کی حدود سے تجاوز کرے اور شریعت نے اُس حد پر سزا مقرر کر رکھی ہو تو پھر اس سزا پر بھی پورا پورا عمل کروائے اور اس سزا میں کسی بھی قسم کی لچک یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرے۔اور حدود نافذ کرنے میں کبھی کسی کی سفارش،رشوت،دھونس یا دھمکی حتی کہ پوری دنیا کی طاقت کے سامنے بھی سرنگوں نہ ہو اور کوئی بھی ’’سمجھوتہ‘‘ کئے بغیر اس حد کو نافذ کر دے تو پھر ’’قائد‘‘ کی شخصیت سے تمام لوگ خوف کھائیں گے اور کسی کو بھی دم مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش خاندان کی عورت فاطمہ پر چوری کا الزام ثابت ہونے پر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو اُسامہ رضی اللہ عنہ کی سفارش پر اُن کو ڈانٹ دیا اور پوری اُمت کو درسِ عبرت دیا کہ تم سے پہلی قومیں اسی لئے برباد ہو گئیں کہ اُن کا بڑا اگر کوئی گناہ کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے اور اگر کمزور شخص گناہ کرتا تو اُس پر حد جاری کر دیتے۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے جب مسلمانوں کا ’’قائد‘‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان میں اور تو کچھ بھی نہیں صرف ’’سخت مزاج‘‘ ہیں۔گویا وہ عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے خوف کھاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے شہروں کے درمیان سفر کرنے والی ایک عورت اپنے پورے زیورات کے ساتھ کئی ہفتوں تک اکیلی سفر کرتی لیکن اُسے کسی چوری اور ڈاکہ زنی کا ڈر یا خوف نہیں ہوتا تھا۔
Flag Counter