Maktaba Wahhabi

43 - 42
علیٰ ھٰذا القیاس جب تک مسلمانوں نے اپنے قائد کو سیدھا رکھا،ان کا دین بھی زندہ رہا اور ان کی حکومت و سیادت بھی۔ان کی سیاست بھی چلتی رہی اور دنیا پر حکمرانی بھی۔ان کی تہذیب و تمدن بھی زندہ رہا اور معاشرتی اقدار بھی۔لیکن جب کبھی بھی یہ چیز ختم ہوئی اور ’’یس سر‘‘ (Yes Sir) کہنے والے لوگ قائدین کے گرد رہے،مسلمانوں کو ہمیشہ شکست و ریخت کا ہی سامنا رہا۔جیسا کہ آجکل ہے۔یہ سب یہودیوں کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ ’’بیچارہ مسلمان‘‘ ان کے چنگل میں پھنس کر ہمیشہ Yes Sir ہی کہتا ہے۔ موازنہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں میں سے چند ایک آدمیوں نے اپنے ’’قائدین‘‘ کو سیدھا رکھنے کے لئے اپنی جانی و مالی قربانیاں پیش کیں لیکن اس وقت بھی بہت سے لوگ اپنے انہیں ’’قائدین‘‘ کے گن گاتے،کوئی خوشی سے اور کوئی ناخوشی سے۔کوئی جبر و ستم سہنے کے بعد اور کوئی مالی فوائد حاصل کرنے کے بعد۔علی ھٰذا القیاس ہم اس کی وجہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سطحی نظر سے دیکھنے والوں نے قرآن مجید کی آیت:اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولو الامر منکم کے تحت اپنے قائدین کے سیاہ و سفید کو ’’حق‘‘ جانا اور بخوشی قبول کیا لیکن دقیق نظر اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قائد ایسے منصب کے دفاع کیلئے انتھک کوششیں کیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تک حکام دین کو قائم رکھیں ان (حکام) سے عداوت مت رکھو‘‘۔اسی طرح فرمایا:پسندیدہ اور ناپسند تمام اُمور میں مسلمان امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا ضروری ہے جب تک وہ گناہ کا حکم نہ کریں اور جب وہ معصیت کا حکم کرے تو نہ اُس کی بات سنی جائے اور نہ اطاعت کی جائے‘‘۔(مختصر صحیح بخاری کتاب الاحکام:2015)
Flag Counter