Maktaba Wahhabi

29 - 42
منکم منکراً … کہ جوکوئی تم میں سے برائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے … لہٰذا قائد کیلئے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر پوری طاقت سے اس ’’برائی کے اسباب‘‘ کا سدِّباب عوام الناس کے ہاتھوں سے کروا دے۔اس سے پہلے کہ غیر مسلم،ان کے کارندے،’’جدید مسلم‘‘ حکومتیں اور ’’جدید علماء‘‘ عام مسلمان کو عقل سے سوچنے کی دعوت دیں اور اس کے دینی جذبات کو ٹھنڈا کر دیں۔جب عام مسلمان عقل سے سوچتا ہے تو اُس کی دینی غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے،توکل علی اللہ والی خوبی محو ہو جاتی ہے،وہ تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے،اللہ تعالیٰ کے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے والی اطاعت ختم ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اسلام کے لئے جامِ شہادت نوش کرنے کی تمنا بھی دم توڑ جاتی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بھی مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے کہ جب انہوں نے قوم کے ساتھ میلے میں شرکت نہ کی۔قوم کو کھیل کود اور تماش بینی میں مشغول دیکھ کر اُن کے عقائد پر ضربِ کاری لگائی اور سوائے ایک کے باقی تمام بتوں کو توڑ دیا جنہیں وہ اللہ کے ہاں اپنا ’’سفارشی‘‘ سمجھا کرتے تھے۔ ان چار لائنوں سے کئی سبق ملتے ہیں مثلاً: 1۔ کھیل تماشے کی بجائے اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لئے قدم اٹھانا۔ 2۔ لوگوں کی سیاہ کاریوں میں ملوث ہونے سے اپنے آپ کو بچانا۔ 3۔ اکیلے آدمی کا لوگوں کے عقائد پر ضربِ کاری لگانا۔اور انہیں تہس نہس کر دینا۔ 4۔ برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ’’بڑی جماعت‘‘ کی ضرورت نہیں بلکہ ایک آدمی جو
Flag Counter