Maktaba Wahhabi

25 - 89
ِدعوت وتبلیغ سنّت کے درجہ تک رہ جائے گا۔ اگر آپ پھر بھی اس کام کو گرم جوشی، شوق وذوق اور بھرپور توجہ کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں تو آپ کا شمار بھلائیوں میں جوش وجذبہ کے ساتھ حصّہ لینے اور اطاعت میں سبقت کرنے والوں میں ہوگا۔ دعوت کے فرضِ کفایہ ہونے کی دلیل وحجت اس ارشاد ِ الٰہی سے لی گئی ہے۔ {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیِاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo} (سورۃ آل عمران:۱۰۴) ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیٔے جو بھلائی کی طرف دعوت دے، اچھے کاموں کا حکم کرے، اور برے کاموں سے روکے، اور وہی کامیابی پانے والے ہیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیرنے اس آیت کی تفسیر کے دوران جو بحث کی ہے وہ کچھ یوں ہے: ’’آپ میں سے ایک ایسا گر وہ ہونا چاہیے جو اس امرِ عظیم ’’دعوت وتبلیغ‘‘ کو اپنا نصب العین بنائے، لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے، اُس کے دین کو پھیلائے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تبلیغ کرے۔اگرچہ کہ یہ کام اُمت کے ہر شخص کے حسبِ حال اُس پر واجب ہے۔‘‘[1] یہ بات بھی معروف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی اور مکہ مکرّمہ میں اس کام کو حسبِ ہمّت واستطاعت سرانجام دیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی حتی المقدور محنت کی۔پھر جب انہوں نے ہجرت کی تو پہلے کی نسبت زیادہ گرمجوشی اور لگن سے دعوت وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔اور جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ
Flag Counter