Maktaba Wahhabi

74 - 265
یا نہیں۔ دولت کے پجاری ان میں سے کسی بات کا کوئی خیال نہیں کرتے۔ آپ دیکھیں گے کہ بندۂ درہم و دینار کے نزدیک سب سے قیمتی چیز اور مشغلہ مال جمع کرنا ہے جبکہ ایسے لوگوں کے نزدیک اولاد اور بیوی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ دینی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ عمریں گزر جاتی ہیں، جوانیاں بیت جاتی ہیں لیکن وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں، منافع اور خسارے کا بیلنس چیک کرتے ہوئے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اس دنیا کی حقیقت کو پہچان لیتے ہیں۔ جب عالم شباب عالم شیب (بڑھاپے) میں تبدیل ہو جاتا ہے اور دنیا انھیں فٹ پاتھ پر پھینک دیتیہے تب ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ کچھ بد نصیب تو ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں اس وقت تک بھی ہوش نہیں آتا اور ہوسِ زرّ ختم نہیں ہوتی جب تک کہ ملک الموت کو دیکھ نہ لیں۔ اگر! اگر یہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں تو انھیں پتا چل جائے کہ یہ مال وزر ایک جلد زائل ہونے والی چیز ہے اور اس کی حیثیت مستعار (ادھار) لی گئی شے کی طرح ہے جسے ضرورت کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے کوئی حکمت اور دانائی والی بات نہیں ہو گی کہ ہم قانون حیات اور قانون فطرت کو تبدیل کرتے پھریں، اپنا مال کمر پر لادے ایک بینک سے دوسرے بینک منتقل کرتے پھریں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ہانکتے پھریں۔ ضرورت سے زائد مال ایک فالتو اور اضافی چیز کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی بھی
Flag Counter