Maktaba Wahhabi

39 - 265
آپ نے فرمایا: میں یہ کہتا ہوں کہ اگر وہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا مارا جائے اور پھر وہ حق کو پا لے تو وہ جنت میں جائے گا۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا: آپ نے بالکل صحیح کہا۔ لوگو! آج کے بعد جب تک تم میں یہ رہبرِاعظم موجود ہیں تم مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھنا۔[1] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ علم و عرفان کے عظیم داعی تھے کیونکہ اسلام نے علم و حکمت کی دعوت دینے کا حکم دیا ہے اور یہ علم اسلام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اہل علم پر اپنے اس احسان کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴾ ’’بے شک اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں۔‘‘ [2] سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے ہر عام و خاص کو مخاطب کر کے فرمایا: علم کے اٹھ جانے سے پہلے علم حاصل کر لو۔ اہل علم کا ختم ہونا ہی علم کا اٹھ جانا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اسے علم کی ضرورت پڑ جائے۔ عنقریب تمھارا ایسی قوم سے واسطہ پڑنے والا ہے جن کا دعویٰ ہو گا کہ وہ تمھیں کتاب اللہ کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ انھوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہو گا، پس تم ضرور علم حاصل کرو اور جلد بازی اور مبالغہ آرائی سے بچو۔‘‘[3] آپ ایک ایسے ماہر داعی تھے کہ انسان کی طبیعت اور فطرت سے آگاہ تھے۔ ایک نفسانی عالم تھے جو نفوس مریضہ کی بیماری کی تشخیص کرنے کے بعد بڑی عمدہ دوائی تجویز کرتے
Flag Counter