Maktaba Wahhabi

77 - 148
قراء ت میں ان کے ساتھ کوئی دوسرا شریک ہے۔ اس قراء ۃ کے خود ساختہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود امام قتادۃ رحمہ اللہ سے اس آیت کی جو تفسیر منقول ہے،وہ اس قراء ۃ کے خلاف ہے۔چنانچہ شیخ المفسرین امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں امام قتادۃ رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا ہے: ((قاموا صفین یقتل بعضہم بعضا،حتی قیل لہم کُفوا۔)) ’’وہ قطارمیں کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے یہاں تک کہ انہیں رکنے کا حکم ملا۔‘‘ امام قتادۃ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حکم ِالٰہی کی تعمیل کے بموجب مقتول شہید قرار پائے اور زندوں کی توبہ قبول ہوئی۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: ’’قومِ بنی اسرائیل کو نہایت سخت حکم ملا،وہ اٹھے اور تیز دھار آلوں کے ساتھ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ اور جب ان کی سزا پوری ہو گئی تو تیز دھار آلے ان کے ہاتھ سے گر گئے اور قتل کا سلسلہ رک گیا۔جو زندہ بچ گئے،ان کی توبہ قبول ہوئی اور جوقتل ہو گئے،شہید قرار پائے۔‘‘ ان دونوں تفسیری بیانات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام قتادۃ رحمہ اللہ کے نزدیک اس آیت کریمہ میں قتل سے مراد حقیقی معنوں میں قتل ہے۔اور تاریخ کے ہر دور میں جمہور مفسرین کا بھی یہی موقف رہا ہے۔جب امام قتادۃ رحمہ اللہ کا اپنا نقطہ نظر ہی ان کی طرف منسوب قراء ۃ کے خلاف ہے تو بلاخوفِ تردید یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ قراء ۃ امام قتادۃ رحمہ اللہ کی ذات پر بہتان ہے۔اگر یہ قراء ۃ ان سے ثابت ہوتی تو اس آیت کی تفسیر میں بھی ان کا موقف وہی ہوتا جو گولڈ زیہر نے نقل کیا ہے کہ قتل سے مراد اپنے جرم پر ندامت کا اظہار ہے۔حالانکہ امام قتادۃ رحمہ اللہ سے واضح طور پر یہ ثابت ہے کہ قتل سے مراد یہاں حقیقی معنوں میں قتل ہے،جیسا کہ امام طبری رحمہ اللہ اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا ان کی طرف اس قراء ۃ کی نسبت کسی طور بھی صحیح قرار نہیں دی جا سکتی۔الغرض،یہ ایک منکر اور
Flag Counter